جزیرے کے تقریباً تمام پہاڑوں کی چوٹیوں پر سیٹلائٹ ڈشیں نصب ہیں، لیکن کون سُن رہا ہے، اور کیا سُن رہا ہے، کوئی بتانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اِس کا رقبہ تقریباً گرنزی جزیرے کے برابر ہے، اور یہ صحرا کی طرح گرم اور خشک ہے۔ یہاں کی مٹی سخت ہے۔ سنہ 1815 تک یہ علاقہ غیر آباد تھا بعد میں برطانوی شہریوں نے یہاں سکونت اختیار کی۔
سنہ 1726 میں کچھ ملاح اِس علاقے میں پہنچے جہاں اُنھیں ایک خیمہ اور ڈائری ملی۔ یہ ڈائری اور خیمہ لینڈرٹ ہیسنبوش کا تھا۔ وہ ایک ڈچ میرین تھے جنھیں ہم جنس پرستی کا الزام ثابت ہونے پر سزا کے طور پر اِس علاقے میں بھیج دیا گیا تھا۔
ڈائری کے مطابق ہیسنبوش پانی اور متعلقہ اشیا کی تلاش میں تیزی سے مایوس ہو رہے تھے، جس کے بعد اُنھوں نے سمندری پرندوں اور کچھوے کا خون یہاں تک کہ جان بچانے کے لیے اپنا پیشاب تک پیا۔
اِس جزیرے کے متعلق ڈارون لکھتے ہیں کہ ’ساحل کے قریب کچھ نہیں اگتا۔ یہ جزیرہ مکمل طور پر درختوں سے عاری ہے۔ڈارون نے اپنے دوست جوزف ہاکر کے ساتھ اِس جزیرے کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے کے لیے غور و فکر کیا۔ ہاکر بعد میں کیو میں شاہی بوٹینک گارڈن کے ڈائریکٹر بن گئے اور اُنھوں نے سنہ 1843 میں اِس علاقے کا دورہ کیا اور یہاں آبادکاری کا منصوبہ وضع کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ جزیرے کے سب سے بلند مقام ایک سبز پہاڑ کی چوٹی پر درخت لگائیں گے۔ یہ درخت گرم جنوب مشرقی ہواؤں میں سے نمی نیچے لے کر آئیں گے تاکہ فوجیوں کے لیے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ وہ جانوروں کے چرنے کے لیے گھاس اُگائیں گے اور سبزیاں کاشت کرنے کے لیے زمین کو اِس کے قابل بنائیں گے۔
یہاں موجود بادلوں سے گھرے جنگل میں کھڑے ماہر حیاتیات ڈاکٹر سیم ویبر کہتے ہیں کہ ’ہمارے ارد گرد کاشت سبزیوں سے ظاہر ہے کہ یہ منصوبہ پوری طرح کامیاب رہا۔‘ ہم آتش فشاں علاقے سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہیں لیکن یہاں اوپر کا موسم ہوا دار ہے۔
ویبر کا کہنا ہے کہ ’ایک محتاط اندازے کے مطابق اب یہاں 38 ہزار کے قریب جھاڑیوں کے جُھنڈ ہیں۔ اِن کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے، اِس کی جڑیں 20 سے 30 میٹر اندر ہیں، اب اِس کو قابو کرنے کے لیے حیاتیاتی طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔‘
No comments:
Post a Comment