This science is known to scientists study the long-term it can be used as treatment.
Scientists next year for some common types of blindness treatment will start her experiences.
This therapy is an active gene is inserted in the back of the eye that cell Rewind revival.
The therapy was tested in the last four years, the United Kingdom, the United States, Canada and 32 patients in Germany.
سائنس دانوں کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ طریقہ دیرپا ہے اس لیے اسے بطور علاج استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سائنس دان بعض عام اقسام کے نابیناپن کے علاج کے لیے اگلے سال اس کے تجربات شروع کر دیں گے۔
اس طریقۂ علاج میں آنکھ کے پچھلے حصے میں ایک فعال جین داخل کر دیا جاتا ہے جن سے خلیوں کا از سرِ نو احیا شروع ہو جاتا ہے۔
اس طریقۂ علاج کو گذشتہ ساڑھے چار سال تک برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور جرمنی میں 32 مریضوں پر آزمایا گیا
Scientists have found that not only stops the disease from therapy, but in some cells die, it would again be health and improved vision in patients.Experiments also showed that the therapy is long lasting too.
The first patient treated was four years ago and had no longer any difference in his sight. Instead of going to improve their looks.
Head of research Professor McLaren told the BBC: "The most effective way to deal with the treatment of disease at the genetic level. We are also developing treatments for the most common types of blindness will be available over the next five to ten years
اوکسفرڈ یونیورسٹی میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایک ایسی بیماری کا علاج کیا جو نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے اور اس میں ایک ناکارہ جین کی وجہ سے آنکھ کے خلیے مرنے لگتے ہیں اور یہ مریض رفتہ رفتہ نابینا ہو جاتے ہیں۔
اب تک اس مرض کا کوئی علاج نہیں تھا۔
سائنس دانوں نے دیکھا کہ اس طریقۂ علاج سے نہ صرف بیماری رک گئی بلکہ اس سے بعض مرتے ہوئے خلیے دوبارہ صحت مند ہو گئے اور مریض کی بینائی بہتر ہو گئی۔
تجربات سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ یہ طریقۂ علاج دیرپا بھی ہے۔
پہلے مریض کا علاج ساڑھے چار سال قبل ہوا تھا اور ان کی بینائی میں اب تک کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کی بجائے ان کی نظر میں بہتری آتی جا رہی ہے۔
تحقیق کے سربراہ پروفیسر میک لارین نے بی بی سی کو بتایا: ’کسی بیماری کا جینیاتی سطح پر علاج اس سے نمٹنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ ہم زیادہ عام اقسام کے نابینا پن کے لیے بھی علاج تیار کر رہے ہیں جو اگلے پانچ سے دس سال تک دستیاب ہو جائے گا۔‘
No comments:
Post a Comment